شیعہ نیوز: غزہ پر اسرائیلی حملوں کے خاتمے اور جنگِ غزہ کی حمایت میں یمنی کارروائیوں کے رک جانے کے بعد، یمن کے اعلیٰ حکام نے حالیہ دنوں میں ریاض سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ طے پانے والے امن معاہدے کی شقوں پر اپنے وعدوں پر عمل کرے۔ واضح رہے کہ جب فلسطینی مزاحمتی قوتوں کی طرف سے صہیونی رژیم کے خلاف طوفان الاقصیٰ آپریشن شروع ہوا تھا، اُسی دوران یمن اور سعودی عرب کے درمیان مذاکرات بھی جاری تھے، جو کئی ماہ تک چلتے رہے۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں فریقین کے درمیان جنگ کے خاتمے اور عسکری، انسانی، اور سیاسی اختلافات کے حل کے لیے متعدد سمجھوتے طے پائے تھے۔
یمن کی اعلیٰ سیاسی کونسل کے سربراہ نے مزید کہا کہ یہی وہ قریب ترین اور بہترین راستہ ہے جو اُن لوگوں کی لالچ اور فتنہ انگیزی کو روک سکتا ہے جو اسلامی امت کے اندر جنگ کے آپشن پر سرمایہ کاری کر کے اسرائیل کے مفادات کی خدمت کر رہے ہیں، اگر آپ غور کریں تو امریکہ خطے کی تمام حساس صورتحال سے اسرائیل کے حق میں فائدہ اٹھا رہا ہے۔ صنعا نے اس بات کو نہیں چھپایا کہ وہ سعودی عرب کے امریکی و اسرائیلی دباؤ کے تحت اپنے وعدوں سے پہلو تہی کرنے پر گہری تشویش رکھتا ہے۔ یمنی قیادت نے خبردار کیا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ فوجی کشیدگی کی پالیسی اختیار کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کرے گا، چاہے اس کے نتائج دونوں فریقوں کے لیے تباہ کن ہی کیوں نہ ہوں۔
اسی سلسلے میں یمن کی اعلیٰ سیاسی کونسل کے رکن ضیفُ اللہ الشامی نے تسنیم کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرا ماننا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ آج یمنی قوم ہی وہ فریق ہے جو غزہ کی حمایت کے عزم اور فلسطین کی نصرت کے راستے پر کھڑی ہے اور اس نے اس بڑے معرکے میں استقامت دکھانے کے لیے اپنے ذاتی مفادات اور وقتی مصالح کو قربان کیا ہے، ممکن ہے کہ غزہ کی جنگ کے خاتمے کے بعد یمن کے خلاف جاری جارحیت، یمنی عوام کے مطالبات، اور ان کے حقوق کی بازیابی، چاہے وہ امن، گفتگو، مفاہمت کے ذریعے ہو یا طاقت کے ذریعے ایک بار پھر یمنی قیادت کی اولین ترجیحات میں شامل ہو جائے۔
انہوں نے کہا کہ اس معاہدے میں فریقین نے مکمل طور پر کشیدگی کم کرنے پر اتفاق کیا تھا، لیکن بعد میں سعودیوں نے امریکی ہدایات کے تحت اور طوفان الاقصیٰ کی جنگ کے آغاز کے بعد اس پر عمل درآمد سے انکار کر دیا۔ یمن کی قومی کونسل کے رکن نے مزید کہا کہ میرا کہنا ہے کہ آج سعودی عرب کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ امن کا آپشن ابھی بھی موجود ہے، ورنہ ہمارے سامنے کئی متبادل موجود ہیں، جن میں دوبارہ جنگ کی طرف واپس جانا بھی شامل ہے، سعودی بخوبی جانتے ہیں کہ ہم انہیں اس سے بھی زیادہ نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں جتنا ہم نے اب تک پہنچایا ہے۔
صہیونی جارحیت کے غزہ میں عارضی تعطل کے بعد، صنعا نے اب دوبارہ اپنے مطالبات کی پیروی شروع کر دی ہے، جو اس نے سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں سے امن معاہدے کی شقوں پر عمل درآمد کے سلسلے میں کیے تھے۔ یہ وہی تقاضے ہیں جن پر عمل درآمد طوفان الاقصیٰ کی جنگ اور یمن کی طرف سے غزہ کی حمایت میں کی جانے والی عسکری کارروائیوں کے باعث مؤخر ہو گیا تھا۔ اب صنعاء ان شرائط و مفادات کے نفاذ کی تیاری کر رہا ہے جن پر اس نے پہلے امریکی دباؤ کے باعث عمل نہیں کیا تھا۔ یمن کی اعلیٰ قیادت کے بیانات سے واضح ہے یمن اسلامی اپنے وقار، عزت، حقوق اور غزہ کی نصرت پر کوئی سمجھوتہ کرنیکے لئے تیار نہیں۔
The post یمن کا سعودی عرب کو الٹی میٹم appeared first on شیعہ نیوز پاکستان.


