spot_img

ذات صلة

جمع

بحر الکاہل میں بے دفاع کشتیوں پر امریکی فوج کے حملے

نیویارک/ ارنا- واشنگٹن اور کراکاس کے درمیان بڑھتی کشیدگی...

واشنگٹن میں نمائشی امن؛ فاشر میں جنگی جرائم

تہران/ ارنا- جمعے کے روز واشنگٹن میں سوڈان کے...

غزہ میں امن فوج یا اسرائیلی تحفظ

شیعہ نیوز: غزہ جنگ بندی معاہدے کے بعد جہاں ایک طرف غاصب صیہونی ریاست اسرائیل مسلسل معاہدے کی خلاف ورزیاں کر رہی ہے، وہاں ساتھ ساتھ دنیا بھر میں امریکی اور اسرائیلی دلال فلسطینی عوام اور فلسطین کی مزاحمت یعنی حماس کے خلاف منفی پراپیگنڈا کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ اسی طرح امریکی صدر ٹرمپ مسلسل حماس کو دھمکیاں دے رہے ہیں، لیکن اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے کو ہتھیانے سمیت متعدد خلاف ورزیوں پر کسی قسم کا کوئی ردعمل نہیں دیا جا رہا ہے۔ دنیا بھر کے زرخرید صحافیوں اور دانشوروں کو اس کام پر لگا دیا گیا ہے کہ وہ یہ تاثر پیدا کریں کہ معاہدے کی خلاف ورزی حماس کی طرف سے ہوئی تو پھر حالات کی ذمہ داری حماس اور فلسطینیوں پر آن پڑے گی، لیکن یہ سارے لوگ اسرائیل کی خلاف ورزیوں کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ رویہ خود اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ ان کو کسی خاص مقصد کے لئے اس کام پر لگایا گیا ہے، تاکہ مسئلہ فلسطین کو کمزور کیا جائے اور اسے فراموش کرنے کے لئے جو ممکن ہتھکنڈے استعمال ہوسکتے ہیں، وہ کئے جائیں۔

حال ہی میں ٹائمز آف اسرائیل نامی اخبار نے یہ خبر شائع کی ہے کہ غزہ میں امن فوج کے نام پر پاکستان، انڈونیشیا، آذربائیجان اور ترکیہ کی افواج کو بھیجا جا رہا ہے۔ اس خبر میں سب سے زیادہ جو حیرت کی بات ہے، وہ یہ ہے کہ پاکستان کی فوج کو غزہ بھیجے جانے کی خبر اسرائیل کا ایک روزنامہ دے رہا ہے، جبکہ پاکستانی ذرائع ابلاغ میں اس کی کوئی شنید نہیں ہے۔ ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ باقی ذکر کئے گئے ممالک کا کسی نہ کسی طرح اسرائیل کے ساتھ اتحاد ہے، لیکن پاکستان کا نام کیوں۔؟ اس سوال نے پاکستان میں بھی ہلچل مچا رکھی ہے اور سیاسی و مذہبی حلقوں میں بے چینی پائی جا رہی ہے۔ ایک ایسے وقت میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے کہ جب کچھ دن قبل ہی ایک مذہبی جماعت کو ظاہری طور پر اس لئے کالعدم قرار دیا گیا کہ وہ اسرائیل اور امریکہ مخالف احتجاج کرنا چاہتی تھی، حالانکہ حکومت اور تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں جانتی ہیں کہ وجوہات کچھ اور بھی تھیں۔ ان حالات میں اب پاکستان کی افواج کو غزہ میں امن کے نام پر تعینات کرنے کی بات اسرائیلی اخباروں کے ذریعے پاکستانی شہریوں کو دی جا رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایم ڈبلیوایم اور اپوزیشن اتحاد کا حیدر آباد اور سندھ میں عوامی اجتماعات کا اعلان

پاکستان کے عوامی حلقوں میں تشویش اس لئے بھی پائی جا رہی ہے، کیونکہ ایک تو امن معاہدے کی سرپرسی امریکی صدر ٹرمپ کر رہے ہیں، جن پر دنیا کے عوام بالکل بھی اعتماد نہیں کرتے اور انہوں نے آج تک غزہ میں نسل کشی کے ذریعے قتل ہونے والے ستر ہزار فلسطینیوں کے قتل پر اسرائیل کی مذمت تک نہیں کی ہے۔ لہذا اب ٹرمپ کی خواہشات کے مطابق مسلم ممالک کی افواج کو غزہ میں تعینات کرنے کے اعلان پر دنیا بھر اور بالخصوص پاکستان کے عوام کو اس لئے تشویش ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ مسلمان افواج کو حماس اور فلسطینی مزاحمتی گروہوں کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں اور فلسطینی مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کے لئے مسلمان افواج کی خدمت لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر یہ خدشات درست ہیں تو یقیناً اس بڑی ذلت اور رسوائی مسلمانوں کے لئے اور کچھ نہیں ہوسکتی ہے۔

اگر تاریخی اعتبار سے بھی اس معاملہ پر غور کیا جائے تو ہم جانتے ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل کی پالیسی ہمیشہ سے فلسطین کے مکمل کنٹرول اور مزاحمتی قوتوں کی سرکوبی پر مرکوز رہی ہے۔ ٹرمپ کے سابقہ دورِ حکومت صدی کی ڈیل یعنی Deal of the Century کے نام پر فلسطین کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی، تاہم ٹرمپ ناکام رہے۔ اسی طرح سابقہ دور میں ہی ٹرمپ نے یروشلم (القدس) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے امتِ مسلمہ کے دل پر وار کیا تھا، لیکن پوری دنیا میں اس عمل کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اسی تسلسل میں اگر ٹرمپ یا اس کے حمایتی حلقے مسلمان ممالک کی افواج کو امن یا نگرانی کے نام پر غزہ بھیجنے کا حکم دیں، تو اس کا مقصد مزاحمتی قوتوں کو غیر مسلح اور فلسطینی عزم کو توڑنا ہوگا۔ ماضی میں بھی عراق، افغانستان، شام اور لیبیا میں اتحادی افواج کے نام پر مسلمان ممالک کے فوجی استعمال کیے گئے، جس کے نتیجے میں استعماری ایجنڈے کو تقویت ملی۔

لہذا امریکی صدر کے عزائم کو سمجھتے ہوئے مسلم دنیا کے حکمرانوں کو چاہیئے کہ وہ کوئی بھی ایسا فیصلہ نہ کریں، جس کے سبب نہ صرف فلسطین کاز کو نقصان پہنچتا ہو بلکہ مسلمانوں کی باہمی وحدت اور یکجہتی بھی متاثر ہوتی ہو۔ امریکی حکومت کا یہی ایجنڈا ہے کہ وہ مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا چاہتی ہے۔ کسی غیر مسلم یا استعماری قوت کے سیاسی ایجنڈے کے مطابق مسلمان افواج کا استعمال اسلامی وقار کے بھی منافی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کے علماء اور مفتیان کرام اس عنوان سے کیا ارشاد فرمائیں گے۔؟ کیونکہ ترکیہ سمیت آذربائیجان اور انڈونیشیا تو پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں ہیں۔ لہذا ان سے امید کم ہی نظر آتی ہے، لیکن پاکستان کو کیوں اس دلدل میں گھسیٹا جا رہا ہے۔؟ اگر مقصد فلسطینی عوام کے تحفظ و حمایت کے بجائے امریکی پالیسیوں کی تکمیل ہے، تو یہ عمل ذلت اور غلامی کے مترادف ہے۔

یہ بھی پڑھیں: قم: علامہ ناظر تقوی کا مجلس وحدت مسلمین کے دفتر کا دورہ، تنظیمی امور تبادلہ خیال

اگر مسلمان افواج کو غزہ اس نیت سے بھیجا جائے کہ وہ حماس یا فلسطینی مزاحمت کو کمزور کریں، تو یہ امتِ مسلمہ کی بدترین اخلاقی شکست ہوگی۔ ایسے فیصلے اسلام کے سیاسی استقلال، جہادی فلسفے اور امتِ واحدہ کے اصول کی نفی ہیں۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلمان افواج کا مقصد طاغوت کے حکم پر مظلوموں کو دبانا ہے یا ظالموں کو روکنا۔؟ خلاصہ یہ ہے کہ دو سال تک غزہ میں مسلسل نسل کشی کی جاتی رہی، لیکن مسلم و عرب دنیا کی اڑھائی کروڑ افواج خاموش تماشائی بنی رہیں اور اب امریکی صدر ٹرمپ کے احکامات کو بجا لانے کے لئے غزہ میں پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک کی افواج کی تعیناتی کی بات کی جا رہی ہے اور جس کا مقصد بھی اسرائیلی غاصب افواج سے لڑنا نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس اسرائیلی اور امریکی مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔

انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اگر مسلمان حکمران اپنے عوام کے احساسات اور فلسطین کی حمایت کے بجائے امریکی دباؤ پر فیصلے کریں، تو یہ سیاسی غلامی کی علامت ہے۔ اگر کسی بھی فوجی اقدام میں سیاسی وفاداری کا مرکز واشنگٹن ہے تو یہ امت کے لیے ذلت کا باعث ہے۔ امت کے علماء، دانشوروں اور عوام کو ایسے “فریبِ امن” منصوبوں کو علمی و عوامی سطح پر بے نقاب کرنا چاہیئے۔ اگر واقعی مسلمان ممالک غزہ کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو پھر حقیقی مدد تب ہے، جب مسلمان ممالک فلسطین کو اسلحہ، سفارتی حمایت، انسانی امداد اور سیاسی پشت پناہی فراہم کریں، نہ کہ ان کے خلاف امن فوج کے نام پر جائیں۔ سعادت اُس میں ہے کہ مسلمان طاغوت کے سامنے جھکنے کے بجائے ظلم کے نظام کو بدلنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں، یہی قرآن کا پیغام، یہی محمدﷺ کی سنت، اور یہی فلسطین کی مزاحمت کا سبق ہے۔

تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان

The post غزہ میں امن فوج یا اسرائیلی تحفظ appeared first on شیعہ نیوز پاکستان.

​ 

spot_imgspot_img