تحریر: فاطمہ محمدی
غاصب صیہونی رژیم کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے بدھ کے دن اعلان کیا کہ اس نے اسرائیلی کی تاریخ میں سب سے بڑے گیس معاہدے کی منظوری دے دی ہے جو مصر سے ہونے جا رہا ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اسرائیل اس گیس معاہدے کی بدولت آئندہ برس اربوں ڈالر سود کمائے گا۔ نیتن یاہو نے انرجی کے وزیر الی کوہن کے ہمراہ ویڈیو پیغام میں کہا کہ مصرے سے گیس معاہدے کی لاگت 35 ارب ڈالر ہے جس میں سے 18 ارب ڈالر براہ راست اسرائیلی خزانے میں ڈالے جائیں گے۔ اس نے مزید بتایا کہ پہلے چار سال کے دوران 155 ملین ڈالر اسرائیل کو ادا کیے جانے کا امکان ہے جو 2033ء تک دو ارب ڈالر تک بڑھا دی جائے گی۔ یہ معاہدہ ایسے وقت انجام پایا ہے جب غزہ میں جنگ بندی کی صورتحال شدید نازک ہے اور اسرائیل مسلسل خلاف ورزی کے ذریعے فلسطینیوں کا خون بہانے میں مصروف ہے۔
شیطان سے سودا
اسرائیلی کمپنی “نیومد انرجی” نے اگست کے مہینے میں اعلان کیا تھا کہ اس نے مصر کو گیس ایکسپورٹ کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں اور اس کی مالیت 35 ارب ڈالر ہے۔ اس کے بعد یہ معاہدہ اس وقت روک دیا گیا جب اسرائیل کے وزیر انرجی الی کوہن نے اس کی منظوری نہیں دی اور اس کی وجہ “منصفانہ قیمت” کی گارنٹی فراہم نہ کرنا بیان کیا۔ موصولہ رپورٹس کے مطابق بعد میں امریکہ نے اسرائیل پر یہ معاہدہ قبول کر لینے کے لیے دباو ڈالا اور امریکہ کے وزیر انرجی کرس رائٹ نے الی کوہن کی جانب سے یہ معاہدہ قبول نہ کرنے کی وجہ سے اکتوبر میں مقبوضہ فلسطین کا چھ روزہ دورہ بھی کینسل کر دیا تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ اس معاہدے کے ذریعے اسرائیل اور مصر کو مشترکہ اقتصادی مفادات کے ذریعے ایکدوسرے کے قریب لانا چاہتا ہے۔
7 اکتوبر 2023ء کے دن اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کی جانب سے اسرائیل کے خلاف طوفان الاقصی آپریشن انجام پانے اور غزہ جنگ شرو ہو جانے کے بعد گذشتہ دو سال کے دوران مصر اور اسرائیل کے درمیان تعلقات تناو کا شکار ہو گئے تھے۔ جو بائیڈن کی سربراہی میں گذشتہ امریکی حکومت بھی اس صورتحال کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتی رہی تھی اور اس نے بھی اس گیس معاہدے کی منظوری کے ذریعے اسرائیل اور مصر کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی تھی۔ مصر حکومت کا دعوی ہے کہ اسرائیل سے گیس معاہدہ محض ایک “تجارتی معاہدہ” ہے اور اس کا کوئی سیاسی پہلو نہیں پایا جاتا۔ جمعرات کے دن مصر کے سرکاری ترجمان نے اعلان کیا تھا کہ یہ معاہدہ پرائیویٹ کمپنیوں کے ذریعے انجام پایا ہے اور حکومت کا اس میں کوئی کردار نہیں ہے۔
خفیہ تعلقات
26 مارچ 1979ء کے دن مصر اور اسرائیل نے واشنگٹن میں ایک امن معاہدہ انجام دیا تھا۔ یہ 1978ء میں کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد انجام پایا تھا۔ اس معاہدے کے بنیادی نکات جنگی صورتحال کے خاتمے، تعلقات معمول پر لانے، صحرائے سینا سے غیر اسرائیلی شہریوں اور مصری فوج کا مکمل انخلاء اور اس علاقے کو غیر مسلح رکھنے پر مشتمل تھے۔ گذشتہ چند عشروں کے دوران بالخصوص علاقے میں انجام پانے والی جنگوں اور 2011ء اور 2023ء کے حالات کے بعد مصر اور اسرائیل کے درمیان پائے جانے والے خفیہ اقتصادی تعلقات منظرعام پر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ ان میں سے ایک اسرائیل سے مصر گیس ایکسپورٹ کرنے کا معاہدہ ہے جو اربوں ڈالر کی مالیت کا ہے۔ یہ معاہدہ امریکہ کے دباو پر انجام پایا ہے۔
مصر حکومت اپنی عوام اور عرب ممالک کی رائے عامہ کی ناراضگی اور غصے سے بچنے کے لیے اسرائیل سے اپنے اقتصادی تعلقات کے سیاسی پہلووں کو کم اہمیت ظاہر کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ مصر اور اسرائیل کے درمیان اقتصادی تعلقات کے نتیجے میں ایسے دوطرفہ اقتصادی مفادات معرض وجود میں آ چکے ہیں جو اسرائیل کی معیشت مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ خطے میں انرجی کی تجارت میں مصر کی پوزیشن بھی مضبوط بنا رہے ہیں۔ دوسری طرف اسلامی مزاحمتی بلاک اور خطے کے ممالک ان تعلقات کو شک و تردید کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ اسلامی مزاحمتی بلاک سمجھتا ہے کہ ممکن ہے مختصر مدت کے لیے اسرائیل سے تعلقات کے سبز باغ دکھائے جائیں لیکن طویل المیعاد سطح پر یقیناً اس سے مسلمانوں کو شدید نقصان پہنچے گا۔
صیہونی رژیم ہمسایہ ممالک کی سرزمینوں کی پیاسی
قاہرہ کا خیال ہے کہ اس نے اسرائیل سے اقتصادی تعلقات کے ذریعے اپنی عوام کی معیشت مضبوط بنانے کی گارنٹی حاصل کر لی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نے غاصب صیہونیوں کے سامنے سرخ قالین بچھا دیا ہے۔ صیہونی رژیم مغربی ایشیا خطے میں جہاں بھی سیاسی، فوجی یا اقتصادی اثرورسوخ قائم کرتی ہے وہاں سے ہر گز پیچھے نہیں ہٹتی۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ اقوام متحدہ میں صیہونی رژیم کے نمائندے دنی دانون نے دمشق سے لے کر مقبوضہ فلسطین تک اسلحہ سے عاری علاقہ تشکیل دینے کا مطالبہ کیا ہے اور دعوی کیا ہے کہ: “اسرائیل ایران، حزب اللہ، حماس یا کسی اور گروہ کو اپنی سرحدوں کے قریب آنے کی اجازت نہیں دے گا۔” اس وقت مقبوضہ فلسطین اور شام کے درمیان ایک بفر زون قائم ہے جو 1974ء کی جنگ کے بعد تشکیل پایا تھا اور اقوام متحدہ اس کی نگرانی کی ذمہ داری ہے۔
The post فلسطین کاز سے مصر کی غداری appeared first on شیعہ نیوز پاکستان.


