spot_img

ذات صلة

جمع

صیہونی فوج نے 3 ہفتے میں 42 بار شام کے حدود کی خلاف ورزی کی ہے

تہران/ ارنا- صیہونی فوجی گزشتہ تین ہفتے کے دوران...

لبنان کے جنوبی علاقوں میں صیہونی حکومت کے جاسوسی کے آلات برآمد

تہران/ ارنا- لبنان کی فوج نے یارون سرحدی علاقے...

امام خمینی (رح) بندرگاہ کے راستے ایک کروڑ 27 لاکھ ٹن بنیادی سامان ایران میں برآمد

امام خمینی (رح) بندرگاہ/ ارنا- ایران کے صوبہ خوزستان...

مشہد مقدس میں برفباری کا منظر

جمعے اور ہفتے کے روز مشہد مقدس میں سال...

سال کی طویل ترین رات سے قبل تبریز شہر کا بازار

موسم خزاں کی آخری رات جو زمین کے شمالی...

نصاب تعلیم پر مکتب اہلبیتؑ کے اعتراضات

رپورٹ: سید عدیل عباس

قومی اسمبلی میں 12 اگست 2020ء کو ایک قرارداد منظور کی گئی، جس میں انگریزی حصہ میں لکھا گیا تھا کہ نبی کریم (ص) کے اسم مبارک کیساتھ خاتم النبیین لکھا جائے، تاہم اردو والے حصے میں لکھا تھا کہ حضور کریم (ص) کے نام کیساتھ آئندہ اس طرح لکھا و پڑھا جائے اور درود کو بھی نام کا حصہ بنا دیا گیا، جس میں لفظ ’’اصحابہ‘‘ شامل کیا گیا۔ اسی طرح اسلامیات کی کتب میں بھی درود میں یہ لفظ شامل کیا گیا اور ترجمہ قرآن جو کتب میں شامل ہے، اس کے اندر بھی بریکٹ میں لکھ دیا گیا۔ اس حوالے سے یہاں یہ امر واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ نبی کریم (ص) کے صحابہ کرام کا مقام اور دین مبین اسلام کیلئے ان کی قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، تاہم درود صرف اور صرف آپ (ص) اور آپ کی آل (ع) کیلئے ہے۔ اس معاملہ پر چیئرمین نصاب تعلیم و تعلیمات اسلامیہ فاؤنڈیشن پاکستان غلام حسین علوی نے اسلام ٹائمز کیساتھ خصوصی بات چیت کی، ان کا کہنا تھا کہ درود صرف نبی کریم (ص) اور ان کی آل پر ہے، اصحابہ پر نہیں اور صحاح ستہ احادیث میں بھی اصحابہ پردرود نہیں ہے اور نہ ہی نماز میں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے سابق چیئرمین قبلہ آیاز میر کی صدارت میں اجلاس نمبر 229 میں بھی درود شریف و کتب اسلامیات کے متعلق سفارشات مرتب کی گئیں، جن پر حکومت نے عمل درآمد نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ نصابی مسودات کے انتخاب میں جان بوجھ کر منفی فکر کے حامل مصنفین کو موقع دیا گیا ہے، اہلبیتؑ و خاندان رسالت کے افراد کی شان پر مبنی احادیث اور واقعات کو نصاب میں شامل نہیں کیا گیا، حضور (ص) کے چچا حضرت حمزہ (ع) اور حضرت ابو طالب علیہ اسلام میں سے حضرت حمزہ (ع) کے جگر چبانے کا واقعہ غائب ہے اور حضرت ابو طالب (ع) کے لئے عام الحزن اور شعب ابی طالب کے واقعات احسن بیان نہیں ہیں، آپ (ص) کے دادا حضرت عبد المطلبؑ کے لئے تکریمی الفاظ علیہ السلام تحریر نہ ہیں۔ مخالفین مولا علیؑ کو کتب میں مشاہیر اسلام  کے طور پر شامل کیا گیا ہے، جبکہ بزرگ اصحاب کو یکسر نظر انداز کیا گیا اور اکثریت وہ اصحاب ہیں، جنہوں نے بیعت مولا علیؑ بوقت خلافت نہیں کی تھی اور مخالف گروہ تھے، مثلاً حضرت عمر بن عاص، معاویہ، حضرت خالد بن ولید، حضرت عبداللہ بن عمر بن العاص۔

انہوں نے بتایا کہ میں نے ممبران قومی اسمبلی کو اس متنازعہ قرارداد کے حوالے سے خطوط ارسال کئے اور کہا کہ آپ کی قرارداد میں متنازعہ متن بنایا گیا ہے، جو کہ شائد آپ کے علم میں نہیں ہوگا، آپ و دیگر تمام ممبران قومی اسمبلی جو موجودہ اسمبلی میں موجود ہیں، جنہوں نے اس قرارداد پر دستخط کر رکھے ہیں، اس کا نوٹس لے کر تصحیح کے لیے اقدامات اٹھائیں اور طلباء پر اور بین المسالک ہم آہنگی کے فروغ کے لیے بھی درود شریف میں اصحابہ کے اِضافہ کو درست کروائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نصاب اسلامیات و تعلیمات اسلامیہ فاؤنڈیشن پاکستان نے دو سال سے درسی کتب اسلامیات و دیگر مضامین میں ایک منفی سوچ کے حامل چند افراد کی جانب سے منظم اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت قومی نصاب کونسل و پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ میں شامل کرکے حکومت کی پالیسی کے خلاف اہانت اہلبیتؑ کے مسودات شامل کئے ہیں، اس عمل کے خلاف جدوجہد کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنی جدوجہد دنیاوی لالچ، عہدہ یا سیاسی عزائم کے تحت نہیں کی، بلکہ قربت الی اللہ کی نیت سے کی ہے اور ان شاء اللہ کرتا رہوں گا اور اپنی ذاتی توفیق جو صدقہ آل محمد خداوند متعال نے عطا کی ہے، خرچ کر رہا ہوں۔

غلام حسین علوی نے مزید کہا کہ جو جتنا زیادہ اخلاص و اطاعت اہلبیتؑ پر ہوگا، میں اس کی جوتی کی خاک ہوں اور جو ریاکاری، دنیاداری سے اپنا طرز زندگی اپناتا ہے، میری دوری کی بنیاد ہے۔ جن افراد و علماء نے فرقہ بندی سے بالا ہو کر میری مدد فرمائی ہے، خصوصاً قائدین شیعیان پاکستان کا شکرگزار ہوں کہ جنہوں نے اس کار خیر میں میری مدد اور رہنمائی فرمائی۔ میں اس حوالے سے وزیراعظم، صدر پاکستان، وفاقی وزیر مذہبی امور، وفاقی وزیر تعلیم، وفاقی وزیر داخلہ، سپیکر و سیکریٹری قومی اسمبلی، چیئرمین ایوان بالا، وفاقی سیکرٹری کیبنٹ، وفاقی سیکریٹری قانون، ڈائریکٹر قومی نصاب کونسل، رجسٹرار وفاقی شرعی عدالت پاکستان، چیئرمین ہیومین رائٹس کمیشن پاکستان و پنجاب، وزیراعلیٰ پنجاب، پرنسپل سیکریٹری برائے وزیراعلیٰ پنجاب، وزیر تعلیم پنجاب، وزیر مذہبی امور پنجاب، چیف سیکرٹری پنجاب، ایڈیشنل چیف سیکرٹری پنجاب، سیکرٹری تعلیم سکولز پنجاب، چیئرمین پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ، چیف ایگزیکٹو آفیسر پیکٹا لاہور، ڈائریکٹر کریکولم و کمپلائنس ptcb سے رابطہ کیا، تاہم افسوس کہ اس مسئلہ کو اب تک حل نہیں کیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ منفی سوچ کے حامل افراد کے خلاف ایڈیشنل چیف سیکرٹری پنجاب کے انکوائری کے احکامات پر بھی عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے۔ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل، چیئرمین متحدہ علماء بورڈ پنجاب کو بھی درخواستیں دی گئیں، مگر متحدہ علماء بورڈ 5 علماء کو جو ممبران تھے، کو فرداً فرداً حقائق سے آگاہ کیا، انہوں نے اتفاق کیا، تائیدی خطوط بھی مجھے لکھ کر دیئے، مگر چئیرمین متحدہ علماء بورڈ سے مطالبہ تک نہیں کیا۔ لاہور ہائیکورٹ نے 30 یوم میں فیصلے کا حکم دیا، بالآخر سپیکنگ آرڈر سیکریٹری سکولز پنجاب نے جاری کئے، مگر ان پر عملدرآمد میں  وہی گروپ رکاوٹ ہے، کیونکہ جو ٹیکسٹ بورڈ میں موجود ہے۔ علاوہ ازیں مجلس وحدت مسلمین کی طرف سے پنجاب مین منعقدہ نصاب کانفرنس میں حصہ لیا اور اس کو کامیاب کروانے میں مدد کی، اس کانفرنس کی قراردادوں کو متعلقہ اداروں تک پہنچا دیا، مگر بے سود۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات 2022ء پر عمل کروانا ضروری ہے۔ دونوں بڑی شیعہ جماعتوں سے درخواست ہے کہ ایک احتسابی کمیٹی تشکیل دیں، جو علماء ،خطباء، ذاکرین کو بلا کر شکایات پر فیصلہ کرے۔ ہمارے مدارس کے نصاب میں سیرت آئمہ اہلبیتؑ و کربلا کو شامل کیا جائے۔

The post نصاب تعلیم پر مکتب اہلبیتؑ کے اعتراضات appeared first on شیعہ نیوز پاکستان.

​ 

spot_imgspot_img