spot_img

ذات صلة

جمع

یمن مخالف کرائے کے جنگجوؤں سے اسرائیل کے گہرے روابط کا انکشاف

شیعہ نیوز: برطانوی اخبار ٹائمز نے امارات سے وابستہ جنوبی عبوری کونسل کی جانب سے اسرائیل کو خوش کرنے کی کوششوں، اور اسرائیلی حکام سے ملاقاتوں کے لیے وفود بھیجنے کا حوالہ دیتے ہوئے، جنوبی یمن میں پیش آنے والے واقعات میں صہیونی رجیم کے گہرے کردار اور کرائے کے جنگجوؤں کے ساتھ اس کے روابط کی تفصیلات آشکار کی ہیں۔ ایسے وقت میں جب سعودی عرب اور امارات سے وابستہ کرائے کے عناصر کے درمیان یمن کے جنوبی اور مشرقی مقبوضہ صوبوں میں اختلافات شدت اختیار کر چکے تھے، امریکہ اور صہیونی رجیم کے کردار پر مختلف تجزیے سامنے آ رہے تھے۔ اسی تناظر میں برطانوی اخبار ٹائمز نے چند روز قبل ایک رپورٹ شائع کی جس میں جارح اتحاد کے کرائے کے جنگجوؤں، بالخصوص امارات سے وابستہ جنوبی عبوری کونسل، اور اسرائیل کے درمیان گہرے تعلقات کو بے نقاب کیا گیا۔

اماراتی و سعودی ایجنٹ عناصر سے صہیونی روابط:
المسیرہ کی رپورٹ کے مطابق برطانوی اخبار ٹائمز نے لکھا ہے کہ جنوبی عبوری کونسل نے صنعا کے خلاف مشترکہ اہداف کی بنیاد پر اسرائیلی حکام سے ملاقات کے لیے وفود روانہ کیے ہیں۔ یہ انکشاف ایسے وقت سامنے آیا ہے جب گزشتہ کئی ماہ سے جارح اتحاد کے کرائے کے عناصر کھلے عام سیاسی اور میڈیا سرگرمیوں کے ذریعے اسرائیل کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

سیاسی تقاریر، میڈیا مہمات اور بار بار جاری کیے جانے والے بیانات میں یمن اور خطے کے خلاف صہیونی موقف سے ہم آہنگی واضح طور پر دیکھی جا سکتی تھی، اور اب ان اقدامات نے اس منصوبے کی اصل نوعیت کو بے نقاب کر دیا ہے جس پر یہ عناصر کام کر رہے ہیں۔ حال ہی میں صہیونی میڈیا نے بھی رپورٹ کیا تھا کہ امارات نے متعدد اسرائیلی وفود کو عدن مدعو کیا ہے۔ ٹائمز کی رپورٹ کا سب سے خطرناک پہلو یہ بتایا گیا ہے کہ عدن میں موجود جنوبی عبوری کونسل کو امید ہے کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت حاصل کر لے گی، تاکہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی مزید تطہیر اور معمول پر لانے کے بدلے، جنوبی یمن کی باضابطہ علیحدگی کے فوراً بعد اس کونسل کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کر لیا جائے۔

یہ حقائق اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ جنوبی یمن میں اماراتی کرائے کے عناصر کی جانب سے آگے بڑھایا جانے والا علیحدگی پسند منصوبہ محض ایک مقامی سیاسی کوشش نہیں، بلکہ ایک ایسا منصوبہ ہے جسے امریکہ اور صہیونی رجیم نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر تیار کیا ہے۔ اس منصوبے میں اسرائیل سے تعلقات کی تطہیر کو ایک سیاسی سودے بازی کے آلے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، تاکہ کرائے کے عناصر اپنے لیے بین الاقوامی شناخت اور قبولیت حاصل کر سکیں۔

یمن کی دوبارہ تقسیم کی نئی کوشش
برطانوی اخبار ٹائمز کی جانب سے سامنے آنے والی معلومات ظاہر کرتی ہیں کہ گزشتہ عرصے کے دوران جنوبی عبوری کونسل اور جارح اتحاد سے وابستہ دیگر کرائے کے عناصر کی طرف سے پیش کی گئی تمام تجاویز ایک پہلے سے طے شدہ سیاسی راستے کی عکاسی کرتی ہیں۔ اس راستے کے ذریعے یہ عناصر اسرائیلی دشمن کو سیکیورٹی اور سیاسی خدمات فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ بیرونی حمایت حاصل کی جا سکے جو ان کی بقا کو یقینی بنائے۔

اسی بنیاد پر یمنی مبصرین اور تجزیہ کار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جنوبی اور مشرقی یمن میں اماراتی اور سعودی کرائے کے عناصر کی جانب سے کسی بھی قسم کی کشیدگی یا اشتعال انگیزی دراصل اسرائیلی منصوبوں اور مفادات کے دائرے میں آتی ہے۔ خاص طور پر اس لیے کہ صہیونی رجیم یمن کو محورِ مزاحمت کے بنیادی ستونوں میں سے ایک سمجھتا ہے اور صنعا کی استقامت اور بڑھتی ہوئی صلاحیتوں کو اپنے منصوبوں کے لیے براہِ راست خطرہ قرار دیتا ہے۔

اسی تناظر میں صہیونی حکام، بالخصوص قابض رجیم کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو، کی جانب سے یمن کے خلاف دشمنانہ بیانات میں حالیہ شدت کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ حالیہ پیش رفت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ صہیونی رجیم یمن کے اندرونی کرائے کے عناصر کو استعمال کرنے کے درپے ہے، تاکہ بحیرۂ احمر اور جنوبی یمن میں اپنا ایجنڈا نافذ کر سکے، خاص طور پر ان اسٹریٹجک نقصانات کے بعد جو امریکی اور مغربی حامیوں کو یمنی مسلح افواج کی سمندری کارروائیوں کے نتیجے میں اٹھانا پڑے ہیں۔

اس تناظر میں، کرائے کے عناصر کی جانب سے ہر قسم کی فوجی یا سیاسی سرگرمی دراصل ایک نیابتی جنگ کا حصہ بن جاتی ہے، جس کا مقصد اسرائیلی مفادات کا تحفظ ہے، نہ کہ یمن یا اس کے عوام کا دفاع، اور نہ ہی سعودی و اماراتی جارح طاقتوں کے استعماری منصوبوں کی تکمیل۔ یمنی مبصرین کا کہنا ہے کہ جارح اتحاد کے کرائے کے عناصر اور صہیونی رجیم کے درمیان تعلقات اب وقتی مفادات تک محدود نہیں رہے، بلکہ ایک طویل المدتی منصوبے کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔

اس منصوبے میں خدمات کا تبادلہ، سیاسی پروگراموں پر عملدرآمد اور سیکیورٹی تعاون شامل ہے، جس کی قیمت یمن کی خودمختاری اور وحدت کی قربانی کی صورت میں ادا کی جا رہی ہے۔ دوسری جانب جنوبی عبوری کونسل کی یہ کوشش کہ جنوبی یمن میں اپنی مجوزہ آئندہ حکومت کو صہیونی رجیم سے باضابطہ تسلیم کروائے، اس کی مکمل تابعداری کو ظاہر کرتی ہے اور یمن کی تقسیم کے منصوبے کے پسِ پردہ موجود قوتوں کی حقیقی نوعیت کو بے نقاب کرتی ہے۔

ایک جامع سیاسی تجزیے کے مطابق برطانوی اخبار ٹائمز کی جانب سے گزشتہ روز سامنے آنے والے انکشافات یہ ثابت کرتے ہیں کہ آئندہ دور میں جنوبی اور مشرقی یمن میں جارح اتحاد کے کرائے کے عناصر کی طرف سے ہونے والی کسی بھی فوجی، سیاسی یا اشتعال انگیز کارروائی کو ایک صہیونی امریکی منصوبے کا حصہ سمجھا جانا چاہیے، جس کا مقصد جنوبی دروازے کے ذریعے یمن کو نشانہ بنانا ہے۔ یہ اقدامات محض مقامی نوعیت کے نہیں ہیں اور نہ ہی صرف سعودی عرب یا امارات کی قیادت میں کیے جا رہے ہیں۔

اسی سلسلے میں، صوبہ شبوه کے گورنر عوض العولقی نے کہا ہے کہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران المہرہ اور حضرموت میں پیش آنے والے واقعات ایک ایسے عمل کا حصہ ہیں جو براہِ راست امریکہ اور اسرائیل کی خواہش اور منصوبہ بندی کے تحت انجام پا رہا ہے اور اس کا دائرہ سعودی عرب یا امارات کے کردار سے بھی آگے بڑھ چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی عبوری کونسل کے مسلح عناصر کا حضرموت اور المہرہ کے بعض علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنا اس لیے تھا کہ امارات کے ذریعے اسرائیلی نفوذ کے لیے راستہ ہموار کیا جا سکے۔

ان کا مقصد تھا کہ صنعا کے خلاف تیار کیے گئے منصوبے سے توجہ ہٹائی جا سکے، تاکہ صنعا کو اچانک گھیر لیا جائے اور وہ مقابلے کے لیے تیار نہ ہو۔ گورنر شبوه نے زور دے کر کہا کہ جنوبی عبوری کونسل کے عناصر جنوبی یمن کی بندرگاہوں، اہم تنصیبات اور تیل کے میدانوں کو براہِ راست اسرائیل کے حوالے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی طرح حضرموت میں سعودی عرب کے کردار کو کم کرنا بھی امریکہ اور اسرائیل کی درخواست پر اور یمن کی دوبارہ تقسیم کے منصوبے کے تحت کیا جا رہا ہے، تاکہ صنعا کو ایک ایسے امن منصوبے کو قبول کرنے پر مجبور کیا جا سکے جو امریکہ اور اسرائیل کے مفادات سے ہم آہنگ ہو۔

The post یمن مخالف کرائے کے جنگجوؤں سے اسرائیل کے گہرے روابط کا انکشاف appeared first on شیعہ نیوز پاکستان.

​ 

spot_imgspot_img