spot_img

ذات صلة

جمع

اقوام متحدہ میں ایرانی مشن: زیرو افزودگی اور جبر مذاکرات پر غور نہ کریں

اسلامی جمہوریہ ایران زیعو افزودی اور دباؤ کو مذاکرات...

وزارت خارجہ کے ترجمان کا یمن سعودی عرب قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کا خیرمقدم

تہران (IRNA) اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے...

علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی جنگ

تحریر: علی سردار سراج انسان ایک مکلف وجود ہے، جس...

امریکہ کی عالمی قیادت کا دور ختم ہو چکا ہے، معروف امریکی تجزیہ کار

شیعہ نیوز: بین الاقوامی امور کے معروف تجزیہ کار...

ملتان، جشن مولود کعبہ کی مناسبت سے تحفظ عزاداری امام حسین کونسل کا اجلاس

شیعہ نیوز: ممبر صوبائی اتحاد بین المسلمین کمیٹی پنجاب...

امریکہ کی عالمی قیادت کا دور ختم ہو چکا ہے، معروف امریکی تجزیہ کار

شیعہ نیوز: بین الاقوامی امور کے معروف تجزیہ کار اور صحافی فرید زکریا کا کہنا ہے امریکہ کی عالمی قیادت کا دور ختم ہو چکا ہے۔ فرید زکریا، دنیا کے سب سے مشہور خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی تعلقات کے تجزیہ کاروں میں سے ایک، ٹرمپ کی وینزویلا اور عمومی طور پر لاطینی امریکہ کے حوالے سے نئی پالیسی کو امریکہ کی عالمی قیادت سے دستبرداری کی علامت سمجھتے ہیں۔ نامور امریکی صحافی فرید زکریا جو عالمی نظام، امریکی طاقت اور جیو پولیٹیکل تبدیلیوں پر اپنے جامع تجزیوں کے لیے مشہور ہیں، Foreign Policy میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں دلیل دیتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی، خاص طور پر ان کے دورِ صدارت کے آخری برسوں میں، ایک پرانے مگر طاقتور نظریے کے زیادہ قریب ہو گئی ہے یعنی مونرو ڈاکٹرائن۔ یہ نظریہ، جس کی بنیاد انیسویں صدی میں رکھی گئی، اس اصول پر مبنی ہے کہ مغربی نصف کرہ امریکہ کا خصوصی دائرہ اثر ہے اور کسی بیرونی طاقت کو اس خطے میں فیصلہ کن کردار ادا نہیں کرنا چاہیے۔

مضمون کے مطابق ٹرمپ کی مونرو ڈاکٹرائن محض ماضی کی ایک رومانوی واپسی نہیں، بلکہ ایک جدید، سخت گیر خواہشات پر مبنی تشریح ہے، جس کے علاقائی اور عالمی نظام پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ٹرمپ دنیا کو بین الاقوامی قواعد اور اداروں پر مبنی نظام کے طور پر نہیں دیکھتے، بلکہ بڑی طاقتوں کے دائرہ ہائے اثر کے مجموعے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس تناظر میں مغربی نصف کرہ کو ایک خصوصی حیثیت حاصل ہے، ایسا خطہ جہاں امریکہ کو بالادستی حاصل ہونی چاہیے اور جہاں کسی بھی اسٹریٹجک حریف، خصوصاً چین اور روس، کو گہری مداخلت کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اسی نقطۂ نظر کے تحت، لاطینی امریکہ اور کیریبین کو برابر کے شراکت داروں کے طور پر نہیں بلکہ امریکہ کے سیکیورٹی زون کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ سوچ انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے اوائل کی سامراجی پالیسیوں سے مشابہت رکھتی ہے۔

چین: مونرو ڈاکٹرائن کی بحالی کا بنیادی محرک
مضمون میں زور دیا گیا ہے کہ اس منطق کی واپسی کا سب سے بڑا سبب لاطینی امریکہ میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر ٹرمپ کی گہری تشویش ہے۔انفراسٹرکچر، بندرگاہوں، کان کنی، توانائی اور مواصلاتی نیٹ ورکس میں چینی سرمایہ کاری کو ٹرمپ اقتصادی تعاون کے بجائے ایک جیو پولیٹیکل خطرہ سمجھتے ہیں۔ نتیجتاً، امریکی پالیسی مثبت مسابقت (یعنی بہتر اقتصادی متبادل فراہم کرنے) کے بجائے دباؤ، انتباہات اور سیاسی دھمکیوں پر زیادہ انحصار کرنے لگی، جو اکثر علاقائی حکومتوں کو دفاعی پوزیشن میں دھکیل دیتی ہے۔

جمہوریت اور انسانی حقوق کے بغیر مونرو ڈاکٹرائن
زکریا کا ایک اہم تجزیاتی نکتہ یہ ہے کہ ٹرمپ کی مونرو ڈاکٹرائن، سرد جنگ کے دور کی تشریحات کے برعکس، نظریاتی جواز سے خالی ہے۔ ٹرمپ نہ جمہوریت کے فروغ میں دلچسپی رکھتے ہیں اور نہ ہی انسانی حقوق کو خارجہ پالیسی کا بنیادی معیار سمجھتے ہیں۔ لاطینی امریکہ کی حکومتوں کی حمایت یا مخالفت صرف امریکہ کے قلیل مدتی مفادات کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ آمرانہ حکومتیں سیاسی دباؤ سے محفوظ رہتی ہیں اگر وہ ہجرت، سلامتی یا چین کے خلاف محاذ آرائی جیسے معاملات میں تعاون کریں۔ امریکی صحافی کے مطابق، مغربی نصف کرہ میں ٹرمپ کی پالیسی بڑی حد تک داخلی خدشات سے متاثر ہے۔ غیر قانونی ہجرت، منشیات کی اسمگلنگ اور سرحدی سلامتی امریکہ اور اس کے جنوبی پڑوسیوں کے درمیان تعلقات کے مرکزی محور بن چکے ہیں۔ لاطینی امریکہ کے ممالک عملاً امریکہ کی بیرونی حفاظتی دیواریں بن جاتے ہیں؛ یعنی ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ مہاجرین کے بہاؤ کو روکیں، چاہے اس کی قیمت داخلی عدم استحکام یا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی صورت میں کیوں نہ ادا کرنی پڑے۔

کثیرالجہتی نظام اور علاقائی اداروں کا زوال
اس طرزِ فکر کے تحت، کثیر الجہتی ادارے جیسے آرگنائزیشن آف امریکن اسٹیٹس (OAS) اور علاقائی معاہدے اپنی اہمیت کھوتے جا رہے ہیں۔ ٹرمپ اپنی پالیسیوں کو دو طرفہ معاہدوں، براہِ راست دباؤ اور ذاتی سفارت کاری کے ذریعے آگے بڑھانا پسند کرتے ہیں۔ اس رجحان نے تنازعات کے حل کے اجتماعی طریقۂ کار کو کمزور کیا اور یک طرفہ طرزِ عمل کو فروغ دیا، جس سے طویل مدت میں امریکی قیادت کی اخلاقی اور سیاسی حیثیت پر سوال اٹھتے ہیں۔ معروف تجزیہ کار فرید زکریا خبردار کرتے ہیں کہ اگرچہ مونرو ڈاکٹرائن کی بحالی قلیل مدت میں امریکی طاقت کا مظاہرہ کر سکتی ہے، لیکن طویل مدت میں اس کے الٹے اثرات مرتب ہوں گے۔

حد سے زیادہ دباؤ امریکہ مخالف جذبات کو تقویت دے سکتا ہے، امریکی اثر و رسوخ کو مسابقت کے بجائے جبر کے ساتھ جوڑ سکتا ہے۔ بہت سے ممالک بظاہر واشنگٹن کے ساتھ ہم آہنگ نظر آ سکتے ہیں، لیکن عملی طور پر وہ امریکہ پر انحصار کم کرنے کی کوشش کریں گے۔ زکریا کے مطابق، مغربی نصف کرہ میں ٹرمپ کی خارجہ پالیسی محض ایک عارضی انحراف نہیں بلکہ دنیا کے بارے میں امریکی سوچ میں ایک گہری تبدیلی کی علامت ہے یعنی عالمی قیادت سے دائرہ ہائے اثر کے انتظام کی طرف منتقلی۔ مونرو ڈاکٹرائن، اس نئی تشریح میں، اب دفاعی اصول نہیں رہی بلکہ بڑی طاقتوں کے درمیان مسابقت کے دور میں طاقت کی نئی تعریف کا ایک آلہ بن چکی ہے۔

The post امریکہ کی عالمی قیادت کا دور ختم ہو چکا ہے، معروف امریکی تجزیہ کار appeared first on شیعہ نیوز پاکستان.

​ 

spot_imgspot_img