spot_img

ذات صلة

جمع

اقوام متحدہ میں ایرانی مشن: زیرو افزودگی اور جبر مذاکرات پر غور نہ کریں

اسلامی جمہوریہ ایران زیعو افزودی اور دباؤ کو مذاکرات...

وزارت خارجہ کے ترجمان کا یمن سعودی عرب قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کا خیرمقدم

تہران (IRNA) اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے...

علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی جنگ

تحریر: علی سردار سراج انسان ایک مکلف وجود ہے، جس...

امریکہ کی عالمی قیادت کا دور ختم ہو چکا ہے، معروف امریکی تجزیہ کار

شیعہ نیوز: بین الاقوامی امور کے معروف تجزیہ کار...

ملتان، جشن مولود کعبہ کی مناسبت سے تحفظ عزاداری امام حسین کونسل کا اجلاس

شیعہ نیوز: ممبر صوبائی اتحاد بین المسلمین کمیٹی پنجاب...

علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی جنگ

تحریر: علی سردار سراج

انسان ایک مکلف وجود ہے، جس پر اس کی مختلف حیثیتوں کے مطابق ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ایک شخص باپ ہونے کے ناتے کچھ ذمہ داریاں رکھتا ہے، اولاد ہونے کی حیثیت سے اس پر الگ ذمہ داریاں ہوتی ہیں، ہمسائے، شہری اور ایک خاص مسلک سے تعلق رکھنے کے باعث بھی اس کے فرائض متعین ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ کچھ ذمہ داریاں صرف اس بنا پر اس کے کاندھوں پر آتی ہیں کہ وہ انسان ہے۔ اسی لیے انسان کسی بھی سطح پر ہونے والے ظلم، ناانصافی اور استحصال سے مکمل لاتعلقی اختیار نہیں کر سکتا۔

ملک عزیز پاکستان اس وقت جن حالات سے گزر رہا ہے، وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ آئینی انحراف، بنیادی انسانی حقوق کی پامالی، سیاسی بے یقینی اور عدالتی کمزوری جیسے مسائل مسلسل قومی منظرنامے پر موجود ہیں۔ ایسے حالات میں یہ سوال محض سیاسی نہیں رہتا بلکہ انسانی اور اخلاقی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔ جب مسائل کی نوعیت قومی کے ساتھ ساتھ انسانی بھی ہو، تو صرف شہریوں ہی نہیں بلکہ انسانی حقوق کے لیے سرگرم تمام اداروں اور شخصیات پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ آواز بلند کریں۔

آج کا المیہ یہ ہے کہ کچھ افراد کو کمزور اور بے بنیاد مقدمات میں سزاؤں پر سزائیں دی جا رہی ہیں، جبکہ کچھ لوگ آئین اور قانون سے بالاتر ہو کر استثنا سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ جس ادارے سے انصاف کی امید باندھی جاتی ہے، وہ خود دباؤ اور بے بسی کا شکار نظر آتا ہے۔ جج صاحبان بھی خود کو انصاف کا متلاشی محسوس کرتے ہیں۔ تقریباً تمام سیاسی جماعتیں، باہمی اختلافات کے باوجود، اس بات پر متفق دکھائی دیتی ہیں کہ انتخابات شفاف نہیں ہوئے، مگر اس کے باوجود اقتدار پر قابض اقلیت آئین کے ساتھ من مانی کرنے میں مصروف ہے۔

ایسے حالات میں عوامی حمایت سے محروم حکمران طبقہ اپنی بقا کے لیے بیرونی طاقتوں کی تائید کا سہارا لیتا دکھائی دیتا ہے، جو کسی بھی خوددار قوم کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب ریاستیں اندرونی جواز کھو دیتی ہیں تو ان کا انحصار بیرونی سہاروں پر بڑھ جاتا ہے، اور یہی عمل بالآخر قومی خودمختاری کو کمزور کر دیتا ہے۔ ان حالات میں وہ آوازیں جو آئین، قانون اور انصاف کی بالادستی کی بات کرتی ہیں، اصولی طور پر قابلِ قدر ہیں۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ہر آواز کو اس کے اصل تناظر میں سننے کے بجائے لسانی، فرقہ وارانہ یا جماعتی عینک سے دیکھا جاتا ہے۔ نتیجتاً درست اور غلط کا تعین اصول کی بنیاد پر نہیں بلکہ وابستگی کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، جو کسی بھی سنجیدہ قومی مکالمے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔

ان دنوں علامہ راجہ ناصر عباس جعفری بھی اسی تنقید کی زد میں ہیں۔ وہ آئین، عدل اور قانون کی بالادستی کی بات کر رہے ہیں، مگر ان کے موقف کو ایک خاص سیاسی یا فرقہ وارانہ زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔  حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ ملتِ تشیع کی بعض اہم شخصیات، جو ماضی میں فرقہ واریت کی نفی کا حوالہ دیتی رہی ہیں، اب انہی قومی و آئینی مسائل کو فرقے کی عینک سے دیکھنے لگی ہیں، حتیٰ کہ ریاستی جبر کے سامنے خاموشی یا غیر جانبداری کو دانش مندی قرار دیا جا رہا ہے۔

یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ موجودہ کشمکش کسی سیاسی جماعت، کسی فرد یا کسی فرقے کی جنگ نہیں۔ یہ پاکستان کے آئین، آئینی بالادستی اور انصاف کی جنگ ہے۔ اگر آج آئین کمزور پڑتا ہے تو کل اس کی زد میں ہر شہری آئے گا، چاہے اس کا تعلق کسی بھی مسلک، جماعت یا طبقے سے ہو۔ لہٰذا علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی جدوجہد کو کسی جماعت یا فرقے کے خانے میں بند کرنے کے بجائے اس کے اصل تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اختلافِ رائے ہر شخص کا حق ہے، مگر اختلاف کو فرقہ واریت یا بد نیتی سے جوڑ دینا خود ایک خطرناک رویہ ہے۔ آئین کی بالادستی کی جنگ تبھی کامیاب ہو سکتی ہے جب اسے شخصیات، جماعتوں اور فرقوں سے بلند ہو کر ایک مشترکہ قومی جدوجہد سمجھا جائے۔

The post علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی جنگ appeared first on شیعہ نیوز پاکستان.

​ 

spot_imgspot_img