شیعہ نیوز: اگر پاکستان میں دہشت گردی کے آغاز پر سنجیدہ اور تاریخی نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ اس کی جڑیں 1980ء کے بعد کے سیاسی و جغرافیائی حالات میں پیوست ہیں۔ بعض افراد، خصوصاً مفتی عبدالرحیم جیسے علماء، اس امر کا تاثر دیتے ہیں کہ دہشت گردی کی لہر ایران کے انقلابِ اسلامی کے بعد اٹھی اور اس کا سرچشمہ ایران سے پھوٹا، گویا ایرانی انقلاب نے پاکستان میں شدت پسندی اور مذہبی تصادم کو ہوا دی۔
یہ دعویٰ محض ایک فکری مغالطہ نہیں بلکہ تاریخی حقائق کی صریح تحریف بھی ہے۔ درحقیقت، انقلابِ اسلامی ایران کے اثرات کو محدود کرنے کے لیے اس کے مخالف عالمی اور علاقائی قوتیں متحرک ہوئیں۔ ایران کے انقلاب نے امتِ مسلمہ میں ایک بیداری پیدا کی، استعمار کے خلاف مزاحمت کی روح کو زندہ کیا، اور اسلام کو محض عبادات کا نظام نہیں بلکہ عدل و استقلال کا جامع پیغام بنا کر پیش کیا۔ یہی چیز مغربی استعمار اور ان کے خطے میں موجود حلیفوں کو کھٹکی۔ چنانچہ انقلاب کے اثرات کو روکنے اور اس کی لہروں کو دیگر مسلم ممالک تک پہنچنے سے قبل ہی دبانے کے لیے ایک وسیع منصوبہ بندی کی گئی۔
سعودی عرب اور بعض خلیجی ریاستیں، جو خود مغربی مفادات کے محافظ کے طور پر سرگرم تھیں، انہوں نے ایران کے مقابلے میں فکری و مذہبی محاذ قائم کیا۔ عراق سے صدام حسین کے ذریعے ایران پر جنگ مسلط کی گئی تاکہ انقلابی فکر کو کمزور کیا جا سکے۔ اسی دوران افغانستان میں سوویت یونین کے داخل ہونے کے بعد امریکہ، پاکستان اور خلیجی ممالک نے مشترکہ طور پر ایک نیا “جہادی منصوبہ” تیار کیا۔ پاکستان میں متعدد کیمپ قائم کیے گئے، مدارس کو مالی و عسکری امداد دی گئی، اور مذہب کے مقدس نام پر ایک ایسا بیانیہ تراشا گیا جس کا مقصد “جہاد” کے عنوان سے مخصوص مسالک کو عسکری بنیادوں پر پروان چڑھانا تھا۔
یہ بھی پڑھیں : پاک فوج کے جوانوں اور شیعہ سنی عوام کے قتل عام میں جامعتہ الرشید کا کردار، مفتی عبدالرحیم کےچشم کشاء انکشافات
ان مراکز میں وہی عناصر تیار کیے گئے جو بعد ازاں پاکستان کے اندر ہی فرقہ وارانہ بنیادوں پر تشدد، قتل و غارت، اور تکفیری تحریکوں کا سبب بنے۔ تشیع کے خلاف نفرت انگیز لٹریچر تقسیم کیا گیا، منابر و محراب کو فرقہ واریت کے اڈوں میں بدل دیا گیا، اور انقلابِ اسلامی کے نام پر عوام کے دلوں میں خوف و نفرت کی بیج بوئے گئے۔ نتیجتاً، جو ماحول کبھی رواداری، اشتراک اور باہمی احترام سے لبریز تھا، وہ آہستہ آہستہ تعصب، دشمنی اور خونریزی کے دلدل میں بدل گیا۔
پاکستان میں دہشت گردی کی اصل بنیاد ایرانی انقلاب نہیں بلکہ اس انقلاب کے مخالفین کا وہ منظم نیٹ ورک تھا جو سامراجی قوتوں کے اشاروں پر سرگرم تھا۔ انہوں نے نہ صرف ایران کے خلاف جنگِ تبلیغ اور پروپیگنڈا کا آغاز کیا بلکہ پاکستان کے اندر اپنے مخصوص مفادات کے لیے فرقہ واریت کی آگ بھڑکائی۔ جب کبھی ریاستی و بین الاقوامی طاقتوں کے مفادات بدلتے ہیں، وہ انہی گروہوں کو دوبارہ فعال کر دیتے ہیں، جیسا کہ کراچی میں حالیہ قتل و غارت کے واقعات کے بعد ایک مخصوص تنظیم کو موردِ الزام ٹھہرا کر کیا گیا۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی سرزمین میں جو خون بہا، جو مساجد و امام بارگاہیں جلیں، اور جو بے گناہ انسان نشانہ بنے، اس سب کا پس منظر سیاسی و سامراجی ہے۔ یہ اس طویل سازش کا حصہ تھا جو امت کے اتحاد، آزادی اور بیداری کو کچلنے کے لیے تیار کی گئی تھی۔ اس لیے انصاف اور حقیقت کا تقاضا یہی ہے کہ ایران کے انقلاب کو الزام دینے کے بجائے ان طاقتوں کو پہچانا جائے جنہوں نے مذہب کے مقدس نام کو اپنے سیاسی کھیل کا ہتھیار بنایا، اور جن کے ہاتھ آج بھی اسی خون سے رنگے ہوئے ہیں جسے وہ کبھی “جہاد” اور کبھی “تحفظِ ایمان” کا نام دیتے ہیں۔
پاکستان میں دہشت گردی کی تاریخ دراصل ایک ایسی جنگ کی تاریخ ہے کہ جس میں قلم کے بجائے بندوق، علم کے بجائے نفرت، اور دین کے بجائے سیاست نے غلبہ پایا۔ اور جب تک ہم اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے، دہشت گردی کا یہ زخم کبھی مندمل نہیں ہوگا۔
تحریر: علامہ ڈاکٹرنسید جاوید شیرازی
The post پاکستان میں دہشت گردی کا آغاز : پس منظر، حقیقت اور تحریف appeared first on شیعہ نیوز پاکستان.


