تحریر: تبرید حسین
پاکستان میں مذہبی سیاست عموماً مسلکی شناخت، جذباتی نعروں اور محدود دائرۂ اثر تک سمجھی جاتی رہی ہے۔ ایسے ماحول میں علامہ راجہ ناصر عباس کا قومی سیاست میں ابھرنا محض ایک شخص کی کامیابی نہیں بلکہ ایک فکری تبدیلی کی علامت ہے، جو اس سوال کو جنم دیتی ہے کہ کیا ایک شیعہ عالمِ دین قومی سیاست میں مسلک سے بالاتر ہو کر تمام پاکستانی شہریوں کی نمائندگی کرسکتا ہے۔؟ علامہ راجہ ناصر عباس کا سیاسی سفر اس سوال کا عملی جواب بن کر سامنے آتا ہے۔ پاکستان کی مذہبی و سیاسی تاریخ میں علامہ راجہ ناصر عباس کا ظہور محض ایک فرد کی سیاسی کامیابی نہیں بلکہ ایک فکری تبدیلی کی علامت ہے۔ بطور شیعہ عالمِ دین ان کا قومی سیاست میں فعال کردار ایک ایسے سماجی و سیاسی ماحول میں سامنے آیا، جہاں مذہبی علماء کو عموماً مسلکی دائرے تک محدود تصور کیا جاتا رہا ہے۔ انہوں نے اس روایت کو چیلنج کیا اور یہ ثابت کیا کہ ایک عالمِ دین قومی سیاست میں اصولی، وسیع النظر اور ہمہ گیر کردار ادا کرسکتا ہے۔
انہوں نے ثابت کیا کہ دینی تشخص اور جمہوری سیاست ایک دوسرے کی ضد نہیں بلکہ باہم مل کر معاشرے میں مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں۔ علامہ راجہ ناصر عباس کی سیاست کا امتیاز یہ رہا کہ وہ محض اقتدار کے حصول یا صرف شیعہ قومی حقوق کے گرد محدود نہیں رہی، بلکہ اس کا بنیادی محور وسیع تر انسانی حقوق، آئینی بالادستی اور پاکستانی شہریوں کے اجتماعی مفادات رہے۔ بطور شیعہ عالمِ دین انہوں نے پہلی مرتبہ اس تصور کو عملی شکل دی کہ ایک مذہبی رہنماء اپنی مسلکی شناخت سے بالاتر ہو کر قومی سطح پر تمام شہریوں کی آواز بن سکتا ہے۔ انہوں نے ایوانوں میں پہنچ کر فرقہ وارانہ تقسیم کے بجائے قومی وحدت، انسانی وقار، جمہوری اقدار اور آئین کی بالادستی کی بات کی اور ہر موقع پر اس امر پر زور دیا کہ پاکستان تمام مکاتبِ فکر اور طبقات کا مشترکہ وطن ہے۔
ایک شیعہ عالم ہونے کے ناتے انہیں نہ صرف عمومی سیاسی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا بلکہ خود شیعہ معاشرے کے اندر سے بھی تنقید اور مخالفت کا سامنا ہے۔ روایتی شیعہ مذہبی سیاست کے عادی بعض حلقے ایک عالمِ دین کو قومی اور غیر مسلکی سیاسی کردار میں قبول کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہ تھے۔ اس مخالفت کی بنیادی وجہ فکری بلوغت کا فقدان اور سیاست کو محض مسلکی مفادات تک محدود دیکھنے کا رجحان تھا۔ ایسے حلقوں کے نزدیک ایک شیعہ عالم کا کردار ابھی تک احتجاج، محدود نمائندگی اور داخلی مسائل کے گرد گھومتا ہے، جبکہ علامہ راجہ ناصر عباس نے اس تصور سے آگے بڑھ کر انسانی حقوق، آئینی انصاف، شہری آزادیوں اور قومی یکجہتی کو اپنا بیانیہ بنایا۔ انہوں نے اس اندرونی مخالفت کے باوجود نہ ردِعمل کی سیاست اختیار کی اور نہ ہی اپنے مؤقف میں لچک پیدا کی۔
اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے مختلف مکاتبِ فکر کے مذہبی حلقوں اور علماء کے ساتھ بھی روابط استوار کیے اور مشترکہ نکات کو اجاگر کیا اور اختلافات کو ہوا دینے کے بجائے اتحاد بین المسلمین کی توانا آواز بننے کیساتھ ساتھ تکفیری عناصر کو پس دیوار لگا دیا۔ ان کی سیاسی اور دینی خدمات اور بصیرت اس بات کی غماز ہیں کہ اگر نیت خالص ہو اور مقصد بلند، تو محدود وسائل اور مخالفتوں کے باوجود بھی بڑا کردار ادا کیا جا سکتا ہے۔ علامہ راجہ ناصر عباس نہ صرف شیعہ برادری بلکہ پورے پاکستان کے لیے ایک ایسی آواز ہیں، جو حق، انصاف، آئین کی بالادستی اور جمہوریت کی بات کرتی ہے۔ علامہ راجہ ناصر عباس کی قومی سیاست میں شمولیت ایک ایسے دور میں ہوئی، جب مذہبی شناخت رکھنے والے افراد کو عمومی طور پر صرف اپنے مسلک یا محدود دائرے تک مؤثر سمجھا جاتا تھا۔ تاہم انہوں نے اس تاثر کو عملی طور پر غلط ثابت کیا۔
پہلی مرتبہ ایک نمایاں شیعہ عالمِ دین کی حیثیت سے قومی سیاست میں فعال کردار ادا کرتے ہوئے انہوں نے نہ صرف اپنی جماعت بلکہ وسیع تر عوامی حلقوں میں بھی اعتماد حاصل کیا۔ ان کی تقاریر، پارلیمانی موقف اور عوامی رابطہ مہمات میں ہمیشہ قومی مسائل جیسے آئین کی بالادستی، جمہوریت، انسانی حقوق اور سماجی انصاف کو مرکزی حیثیت حاصل رہی، جس کے باعث مختلف مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے عوام نے انہیں سنجیدگی سے سنا اور قبول کیا۔ حتی سینیٹ آف پاکستان میں ان کا یہ رویہ قومی سطح پر ایک شیعہ سیاسی کردار کی مثبت شناخت کا باعث بنا، جو پہلے کم ہی دیکھنے میں آتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی آواز صرف ایک مسلک کی نمائندہ نہیں رہی بلکہ ایک قومی آواز کے طور پر جانی جانے لگی۔ یہ ایک نمایاں حقیقت ہے کہ علامہ راجہ ناصر عباس اگر چاہتے تو آسانی سے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے جھک کر یا ساز باز ( ڈیل) کرکے چند ذاتی یا جماعتی مفادات حاصل کرسکتے تھے۔ مگر انہوں نے اس راستے کا انتخاب نہیں کیا۔
اس کے برعکس انہوں نے قومی مفادات، آئینی بالادستی اور انسانی قدروں اور فسطائیت کے خلاف کھڑا ہونے کو ترجیح دی، چاہے اس کی قیمت سیاسی تنہائی یا دباؤ کی صورت میں کیوں نہ ادا کرنا پڑی۔ یہی پہلو ان کے کردار کو عام شیعہ یا دیگر مذہبی رہنماؤں سے ممتاز بنا رہا ہے۔ علماء کے تقدس کے عمومی اور محفوظ خول سے باہر نکل کر عوامی اور جمہوری جدوجہد کا حصہ بننا آج کے فسطائی ماحول میں غیر معمولی جرات کا تقاضا کرتا ہے۔ ایسے دور میں، جب عدالتیں دباؤ میں ہوں، میڈیا یا تو خاموش کر دیا گیا ہو یا خرید لیا گیا ہو اور اختلافِ رائے کو غداری سمجھا جائے، وہاں ایک عالمِ دین کا عوام کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا محض سیاسی عمل نہیں بلکہ اخلاقی مزاحمت بن جاتا ہے۔ علامہ راجہ ناصر عباس نے اسی مشکل راستے کا انتخاب کیا، جہاں تقدس کی آڑ میں خاموش رہنا آسان تھا، مگر ظلم کے خلاف بولنا ضروری۔
بدقسمتی سے شیعہ قوم آج بھی نیم خواندہ ذاکرین اور خطیبوں کے جذباتی اور محدود بیانیوں میں الجھی ہوئی ہے، اس کے لیے ایک ایسے شیعہ عالم کا سیاسی کردار فوراً ہضم کرنا آسان نہیں ہوگا، جو مسلکی دائرے سے نکل کر قومی اور انسانی مسائل کی بات کرے۔ ایسے سماج میں مذہبی قیادت کو اب بھی روایتی خطابت، احتجاج اور محدود مطالبات کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے، نہ کہ فکری رہنمائی اور قومی شعور کے حوالے سے۔ اسی لیے علامہ راجہ ناصر عباس جیسے کردار کی قبولیت وقت مانگتی ہے، کیونکہ یہ کردار روایت نہیں بلکہ تبدیلی کی علامت ہے اور ہر تبدیلی ابتدا میں مزاحمت کو جنم دیتی ہے۔ آخر میں ایک نہایت اہم نکتے کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا، خصوصاً اس تناظر میں کہ شیعی حلقوں میں بالعموم یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ سیاسی جدوجہد میں مذہبی استعاروں کا استعمال کیا جانا چاہیئے یا نہیں۔ یہ موضوع اپنی جگہ ایک مستقل کالم کا متقاضی ہے۔
تاہم اتنا ضرور یاد رکھنا چاہیئے کہ حسینؑ اور کربلا کسی ایک مسلک کی ملکیت نہیں بلکہ پوری انسانیت کا مشترکہ ورثہ ہیں۔ ہر دور میں، ہر مذہب اور ہر برادری کے اہلِ فکر نے امام حسینؑ کی ذات سے ظلم، جبر اور فسطائیت کے خلاف رہنمائی حاصل کی ہے۔ مثال کے طور پر موجودہ عہد میں اگر نیلسن منڈیلا جیسے عظیم رہنماء امامِ حریت، امام حسینؑ سے رہنمائی لیتے ہیں اور اس کا برملا اعلان بھی کرتے ہیں تو نہ مجھے اور نہ ہی آپ کو اس پر اعتراض کا کوئی حق حاصل ہے، کیونکہ حسینؑ صرف شیعوں کے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے امام اور نجات دہندہ ہیں۔ البتہ راجہ صاحب سے یہ گزارش ضرور ہے کہ جس طرح آپ نے سیاسی میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور اپنا قد بلند کیا ہے، اسی طرح بہتر ہوگا کہ سیاسی جدوجہد کے لیے کفر و اسلام کی جنگ جیسی تعبیرات کے بجائے آئینی اور جمہوری جدوجہد کی زبان اختیار کی جائے، تاکہ بات زیادہ جامع، مؤثر اور قابلِ قبول ہو۔
The post ایک کالم علامہ راجہ ناصر عباس کے نام appeared first on شیعہ نیوز پاکستان.


